• Misyar Marriage

    is carried out via the normal contractual procedure, with the specificity that the husband and wife give up several rights by their own free will...

  • Taraveeh a Biad'ah

    Nawafil prayers are not allowed with Jama'at except salatul-istisqa' (the salat for praying to Allah to send rain)..

  • Umar attacks Fatima (s.)

    Umar ordered Qunfuz to bring a whip and strike Janabe Zahra (s.a.) with it.

  • The lineage of Umar

    And we summarize the lineage of Omar Bin Al Khattab as follows:

  • Before accepting Islam

    Umar who had not accepted Islam by that time would beat her mercilessly until he was tired. He would then say

Monday, February 23, 2015

MUNAZIRAH: Shia vs Deobandi - Topic Fidak - Audio


Monday, February 16, 2015

اگر عمر متعہ سے منع نہ کرتا تو کوئی بد بخت ہی زنا کرتا: ابن عباس


ایک مستند روایت ملاحظہ ھو

امام عبدالرزاق اور منذر نے عطا کے واسطہ سے ابن عباس سے روایت نقل کی ھے کہ اللہ عمر پر رحم فرمائے، نکاح متعہ اللہ کی رحمت تھی جو اس نے امت محمدی پر کی، اگر عمر اس سے منع نہ کرتے تو کوئی بد بخت ہی زنا کرتا

{تفسیر در منثور،ترجمہ پیر کرت شاہ الازھری، جلد 2، صفحہ 390-391، طبع ضیا القرآن پبلیکیشن، پاکستان}
یہ روایت اس سند کے ساتھ مصنف عبدالرزاق میں آئی ھے

عبد الرزاق ، عن ابن جريج ، عن عطاء قال ۔۔۔۔۔۔ 
قال عطاء ، وسمعت ابن عباس يقول : " يرحم الله عمر ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عز وجل رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم فلولا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي "

{المصنف كتاب الطلاق باب المتعة}
سارے راوی ثقہ ھیں، ابن جریج پر تدلیس کا الزام ھے، مگر شیخ البانی نے اپنی کتاب {إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل} میں اس بات کو واضح کیا ھے کہ ابن جریج کا عطا سے سماع ثابت ھے جو کہ صحیح سند کے ساتھ أبو بكر بن أبي خيثمة نے ابن جریج سے نقل کیا ھے کہ ابن جریج نے کہا کہ جب میں کہوں عطا نے کہا، اس کا مطلب ھے کہ میں نے اسے سنا ھے، چنانچہ البانی لکھتے ھیں

فقد روى أبو بكر بن أبي خيثمة . بسند صحيح عن ابن جريج قال : ( إذا قلت : قال عطاء فإنا سمعته منه وإن لم أقل سمعت ) . قلت : وهذه فائدة هامة جدا تدلنا على أن عنعنة ابن جريج عن عطاء في حكم السماع


الكتاب : إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل
المؤلف : محمد ناصر الدين الألباني
الناشر : المكتب الإسلامي - بيروت
الطبعة : الثانية - 1405 - 1985
[ المكتبة الشاملة ]
الجزء 4 الصفحة 244 

حدیث قرطاس: جابر بن عبداللہ کی روایت


مشہور و معروف حدیث، حدیث قرطاس، آپ لوگوں نے جناب ابن عباس سے سنی ھو گی۔ ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ھے کہ یہ صرف ابن عباس سے ہی مروی ھے۔ ذیل میں جناب جابر بن عبداللہ کی زبانی ایک مستند روایت ملاحظہ ھو۔ 

حضرت جابر سے مروی ہے کہ نبی نے اپنی وفات سے قبل ایک کاغذ منگوایا تا کہ ایسی تحریر لکھوا دیں جس کی موجودگی میں لوگ گمراہ نہ ہو سکیں لیکن حضرت عمر نے اس میں دوسری رائے اختیار کی یہاں تک کہ نبی نے اسے چھوڑ دیا

{مسند احمد،اردو، جلد 6، صفحہ 188}
مسند احمد کے محقق، شیخ حمزہ احمد زین، نے اس سند کو حسن قرار دیا ہے
{مسند احمد،تخریج شیخ حمزہ احمد زین ، جلد 11، صفحہ 526}
مسند احمد کے محقق، شیخ شعیب الارناوط، نے اس حدیث کو صحیح لغیرہ قرار دیا ہے
{مسند احمد،تخریج شیخ شعیب الارناوط ، جلد 23، صفحہ 68، حدیث 14726}
اس سے ملتی جلتی اسناد کے ساتھ یہ روایت مسند ابو یعلی میں بھی آئی ھے، اور اس کے محقق، شیخ حسین سلیم اسد، نے دونوں اسناد کے راویان کو صحیح حدیث کا راوی قرار دیا ھے
{مسند ابو یعلی، تخریج شیخ حسین سلیم اسد، جلد 3، صفحہ 393، روایت 1869 اور جلد 3، صفحہ 395، روایت 1871}

معاویہ کا متعہ کرنا: معتبر اسناد

 
نواصب کا کمال یہ ہے کہ شیعوں پر طعن کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، اور متعہ کو زنا تک قرار دینے سے نہیں چوکتے؛ مگر اس کے بر عکس ہمیں یہ ملتا ہے کہ ان کے اپنے بڑے اس معاملے میں پیچھے نہیں رہے، اور متعہ سے مستفید ہوتے رہے، یہ الگ بات کہ نواصب سادہ لوح اہلسنت کو اس سے آگاہ نہیں کرتے 
 
ہم آپ کو معتبر اسناد سے یہ دکھلاتے ہیں کہ معاویہ نے متعہ کیا۔ اور یہ آنحضرت کے وفات کے بعد کا واقعہ ہے
 
مشہور اہلسنت عالم، عبدالرزاق ابن ہمام، جو کہ بخاری کے شیوخ میں ہیں؛ اپنی کتاب المصنف، جلد ۷، صفحہ ۴۹٦-۴۹۷؛ لکھتے ہیں
 
ابن جریج عطا سے روایت کرتے ہیں کہ پہلا شخص کے جس سے میں نے متعہ کے بارے میں سنا، وہ صفوان بن یعلی تھا۔ اس نے کہا کہ میرے والد نے مجھے بتایا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا؛ مگر میں نے اس کی تردید کی۔ سو ہم ابن عباس سے ملے، اور اس کا کچھ تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ مگر میں نے نہ مانا۔ یہ رہا یہاں تک کہ ہم جابر بن عبداللہ سے ملے، ہم ان کے گھر آئے، اور لوگوں نے ان سے سوال پوچھے۔ پھر متعہ کی بات چھڑی۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی پاک کی زندگی میں متعہ کیا، پھر ابو بکر کی زندگی میں، اور پھر عمر کے زمانے میں یہاں تک کہ ان کی خلافت کے آخری عرصے میں عمر ابن حریث نے متعہ کیا ایک عورت کے ساتھ، جابر نے اس کا نام لیا تاہم میں بھول گیا۔ وہ حاملہ ہو گئی، اور یہ بات عمر تک پہنچی، عمر نے اسے بلایا اور اس بارے میں پوچھا
 
عطا نے پھر کہا کہ میں نے ابن عباس سے سنا کہ اللہ عمر پر رحم کرے، متعہ اللہ کی جانب سے ایک رخصت تھی امت محمدیہ کے لیے۔ اگر اسے منع نہ کیا جاتا، تو سوائے شقی کے، کوئی زنا نہ کرتا
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
14021 - عبد الرزاق عن ابن جريج عن عطاء قال : لاول من سمعت منه المتعة صفوان بن يعلى ، قال : أخبرني عن يعلى أن معاوية
استمتع بامرأة بالطائف ، فأنكرت ذلك عليه ، فدخلنا على ابن عباس ، فذكر له بعضنا ، فقال له : نعم ، فلم يقر في نفسي ، حتى قدم جابر ابن عبد الله ، فجئناه في منزله ، فسأله القوم عن أشياء ، ثم ذكروا له المتعة ، فقال : نعم ، استمتعنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ، وأبي بكر ، وعمر  ، حتى إذا كان في آخر خلافة عمر استمتع عمرو بن حريث بامرأة - سماها جابر فنسيتها - فحملت المرأة ، فبلغ ذلك عمر ، فدعاها فسألها ، فقالت : نعم ، قال : من أشهد ؟ قال عطاء : لا أدري قالت : أمي ، أم وليها ، قال : فهلا غيرهما ، قال : خشي أن يكون دغلا الاخر  ، قال عطاء : وسمعت ابن عباس يقول : يرحم الله عمر ، ما كانت المتعة إلا رخصة من الله عزوجل ، رحم بها أمة محمد صلى الله عليه وسلم ، فلو لا نهيه عنها ما احتاج إلى الزنا إلا شقي
 

 
 
 
اس روایت سے ہمیں معلوم پڑھا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا۔ اور جابر نے اس بات کی گواہی دی کہ متعہ عمر کی خلافت کے آخری عرصہ میں منع ہوا۔ نیز ابن عباس نے کہا کہ اگر عمر اس سے منع نہ کرتا، تو سوائے بدبخت کے کوئی زنا نہ کرتا
 
با الفاظ دیگر، ابن عباس کی نظر میں متع زنا نہیں، بلکہ زنا سے بچاو کا ذریعہ تھا
 
 
جہاں تک روایت کی سند کا سوال ہے، شیخ ابن باز انے فتاوی، جلد ۲۰، صفحہ ۳۷۸ پر فرماتے ہیں
 
 
جہاں تک معاویہ ہے، عبدالرزاق نے صفوان کی سند سے بتلایا کہ معاویہ نے طائف میں متعہ کیا، اور اس کی سند صحیح ہے
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
 وأما معاوية فأخرجه عبد الرزاق من طريق صفوان بن يعلى بن أمية ، أخبرني يعلى أن معاوية استمتع بامرأة بالطائف ، وإسناده صحيح
 

 
 
ایک اور روایت پیش کرتے ہیں
 
 
عبدالرزاق نے اسی جلد کے صفحہ ۴۹۹ پر ایک سند کے ساتھ روایت لکھی

Quote
 
14025 - عبد الرزاق عن ابن جريج قال : أخبرني أبو الزبير قال : سمعت جابر بن عبد الله يقول : استمتعنا أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم ، حتى نهي  عمرو بن حريث ، قال : وقال جابر : إذا انقضى الاجل فبدا لهما أن يتعاودا ، فليمهرها مهرا آخر ، قال : وسأله بعضناكم تعتد ؟ قال : حيضة واحدة ، كن يعتددنها للمستمتع  منهن.
 

 
 
اس روایت میں جابر کہہ رہے ہیں کہ اصحاب رسول نے متعہ کیا حتی کہ عمرو بن حریث کے واقعہ کے بعد یہ منع ہوا۔ اور جابر نے کہا کہ اگر مقررہ وقت ختم ہو جائے، تو پھر سے پہلی والی مہر دو دوبارہ متعہ شروع ہونے سے پیشتر؛ لوگوں نے سوال کہ کہ اس کی عدت کتنی ہے، تو کہا کہ ایک حیض کی مدت
 
 
یہ روایت تو تبرک کے طور پر آ گئی، بات اس کے سند کی ہو رہی تھی
 
 
اس سے اگلی سند میں عبدالرزاق کہتے ہیں کہ
 
 
اور ابو زبیر نے کہا کہ میں نے جابر کو سنا کہ وہ کہہ رہے تھے کہ معاویہ نے طائف میں ابن الحضرمی کی کنیز کے ساتھ متعہ کیا، اور اس کا نام معانہ تھا۔ جابر نے کہا کہ وہ معاویہ کے زمانے تک رہی، اور وہ اسے ہر سال تحائف بھیجا کرتا تھا اس کے مرنے تک
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
14026 - وقال أبو الزبير : وسمعت جابر بن عبد الله يقول : استمتع معاوية ابن أبي سفيان مقدمه من (4) الطائف على ثقيف ، بمولاة ابن الحضرمي يقال لها معانة (5) ، قال جابر : ثم أدركت معانة خلافة معاوية حية ، فكان معاوية يرسل إليها بجائزة في كل عام حتى ماتت.
 

 
اس سند کے سارے راوی ثقہ اور مشہور ہیں- اگرچہ ابن جریج اور ابو زبیر پر تدلیس کا الزام ہے، تاہم دونوں نے سماعت کی وضاحت کی ہے
 
 
مزید تفصیل کے لیے ہمارے انگریزی مقالوں کی طرف رجوع کریں
 
 
 
 

عمر کا مولا علی کو غدیر کے دن مبارک باد دینا

مسند امام احمد، جلد ۳۰، صفحہ ۴۳۰؛ میں ایک روایت آتی ہے 
برا بن عازب کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ کے ساتھ تھے سفر میں جب ہم غدیر خم کے مقام پر پہنچے۔ اس وقت نماز کے لیے اذان دی گئی۔ اور رسول اللہ نے نماز پڑھی، اور پھر علی کا ہاتھ پکڑ کے کہا
کیا میں مومنوں پر ان کی جان سے زیادہ حق نہیں رکھتا؟
ہم نے کہا: بالکل
اس پر فرمایا: جس کا میں مولا ہوں، علی اس کے مولا ہیں۔ اے اللہ ! اس کا دوست بن جو اس کا دوست ہے، اور اس کا دشمن بن جو اس کا دشمن ہے۔ 
اس کے بعد عمر ان سے ملا اور کہا: مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے! آج آپ تمام مومنین کے مولا بن گئے

عربی متن یوں ہے


Quote
18479 - حَدَّثَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ ثَابِتٍ، عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَنَزَلْنَا بِغَدِيرِ خُمٍّ، فَنُودِيَ فِينَا: الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ، وَكُسِحَ لِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَحْتَ شَجَرَتَيْنِ، فَصَلَّى الظُّهْرَ، وَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: ” أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟ ” قَالُوا: بَلَى، قَالَ: ” أَلَسْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي أَوْلَى بِكُلِّ مُؤْمِنٍ مِنْ نَفْسِهِ؟ ” قَالُوا: بَلَى، قَالَ: فَأَخَذَ بِيَدِ عَلِيٍّ، فَقَالَ: ” مَنْ (1) كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ ” قَالَ: فَلَقِيَهُ عُمَرُ بَعْدَ ذَلِكَ، فَقَالَ: ” لَهُ هَنِيئًا يَا ابْنَ أَبِي طَالِبٍ، أَصْبَحْتَ وَأَمْسَيْتَ مَوْلَى كُلِّ مُؤْمِنٍ، وَمُؤْمِنَةٍ “

اس روایت کے سارے راویان بخاری یا مسلم کے ہیں
تاہم علی بن زید پر جرح بھی موجود ہے، اس وجہ شیخ شعیب نے اسے صحیح لیغیرہ کہا
اگرچہ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی سند سنن ابن ماجہ میں بھی آتی ہے، مگر اس میں عمر کا مبارک دینا مذکور نہیں۔ اور اس روایت کو شیخ البانی نے اپنی صحیح سنن ابن ماجہ ؛ جلد ۱، صفحہ ۵٦ روایت ۱۱۵؛ پر درج کی، اور صحیح قرار دیا۔ سند پر توجہ دیں


Quote
 حدثنا علي بن محمد حدثنا أبو الحسين أخبرني حماد بن سلمة عن علي بن زيد بن جدعان عن عدي بن ثابت عن البراء بن عازب قال أقبلنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجته التي حج فنزل في بعض الطريق فأمر الصلاة جامعة فأخذ بيد علي رضي الله عنه فقال ألست أولى بالمؤمنين من أنفسهم قالوا بلى قال ألست أولى بكل مؤمن من نفسه قالوا بلى قال فهذا ولي من أنا مولاه اللهم وال من والاه اللهم عاد من عاداه

خیر واپس آتے ہیں مسند احمد کے محققین کی جانب
دوسرے محقق، شیخ حمزہ احمد زین، نے اپنی تحقیق کے جلد ۱۴، صفحہ ۱۸۵؛ پر اس سند کوحسن کہا۔ 
اس روایت کو احمد بن حنبل نے اپنی فضائٖل الصحابہ، جلد ۲، صفحہ ۷۵۵، روایت ۱۰۴۲؛ میں درج کیا؛ اور کتاب کے محقق، وصی اللہ بن محمد عباس؛ نے اسے حسن لیغیرہ قرار دیا
سیر اعلام نبلا، جلد ۲، صفحہ ۵۰۲، طبع دار الحدیث قاہرہ؛ پر بھی یہ روایت درج ہے، اور محققین نے اسے حسن حدیث کہا ہے
گویا کسی نے اسے ضعیف نہیں کہا
اس کے علاوہ اس کی تائید میں ایک اور حدیث بھی ہمیں ملتی ہے، تاریخ بغداد، جلد ۹، صفحہ ۲۲۲؛ پر کہ 
ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ جس نے ۱۸ ذی الحجہ کا روزہ رکھا، اس کو اتنا ثواب لکھا جائے گا جیسا کہ اس نے ٦۰ ماہ کے  روزے رکھے۔ اور یہ غدیر خم کا دن ہے جب نبی پاک نے علی کا ہاتھ پکڑا، اور کہا: کیا میں مومنین کا ولی نہیں؟ لوگوں نے کہا کہ جی بالکل۔ تو نبی پاک نے کہا کہ جس کا میں مولا ہوں، اس کا علی مولا ہے۔ اس پر عمر نے کہا کہ مبارک ہو، مبارک ہو اے ابو طالب کے بیٹے کہ آپ سب مسلمانوں کے مولا بنے۔ اس پر اللہ نے نازل کی یہ آیت کہ آج کے دن میں نے تمہارے دین کو کامل کیا (سورہ مائدہ)
عربی متن یوں ہے


Quote
رقم الحديث: 2775
(حديث مرفوع) أخبرنا عبد الله بن علي بن محمد بن بشران ، قال : أخبرنا علي بن عمر الحافظ ، قال : حدثنا أبو نصر حبشون بن موسى بن أيوب الخلال ، قال : حدثنا علي بن سعيد الرملي ، قال : حدثنا ضمرة بن ربيعة القرشي ، عن ابن شوذب ، عن مطر الوراق ، عن شهر بن حوشب ، عن أبي هريرة ، قال : من صام يوم ثمان عشرة من ذي الحجة كتب له صيام ستين شهرا ، وهو يوم غدير خم لما أخذ النبي صلى الله عليه وسلم بيد علي بن أبي طالب ، فقال : " ألست ولي المؤمنين ؟ " ، قالوا : بلى يا رسول الله ، قال : " من كنت مولاه فعلي مولاه " ، فقال عمر بن الخطاب : بخ بخ لك يابن أبي طالب أصبحت مولاي ومولى كل مسلم ، فأنزل الله : اليوم أكملت لكم دينكم سورة المائدة آية 3 

محقق، بشار عواد معروف نے اس سند میں یہ ضعف نکالا کہ شھر ابن حوشب اور مطر الوراق ضعیف ہیں۔ 
اس پر ہم مشہور عالم رجال، ابن حجر عسقلانی کے طرف رجوع کرتے ہیں
وہ کہتے ہیں مطر الوراق سچے ہیں، اگرچہ خطا کافی کرتے ہیں۔ اور عطا سے ان کی روایت ضعیف ہے۔ اس بات کا بھی اشارہ کیا ہے کہ یہ مسلم اور دیگر ۴ کتب  کے راوی ہیں
عربی متن یوں ہے


Quote
6699- مطر بفتحتين ابن طهمان الوراق أبو رجاء السلمي مولاهم الخراساني سكن البصرة صدوق كثير الخطأ وحديثه عن عطاء ضعيف من السادسة مات سنة خمس وعشرين ويقال سنة تسع ختم 4

اس کے علاوہ شھر ابن حوشب کے بارے میں رقمطراز ہیں کہ یہ سچے ہیں اگرچہ ان کو وہم ہوتا ہے، اور مرسل روایات بیان کرتے ہیں۔ اس بات کی بھِ وضاحت کی ہے کہ یہ بھی صحیح مسلم اور دیگر ۴ کتب، یعنی ابن ماجہ، ابی داود، ترمذی، نسائی؛ کے راوی ہیں
عربی متن یوں ہے


Quote
2830- شهر ابن حوشب الأشعري الشامي مولى أسماء بنت يزيد ابن السكن صدوق كثير الإرسال والأوهام من الثالثة مات سنة اثنتي عشرة بخ م 4

گویا یہ دونوں امام مسلم کی شرط پر ثقہ تھے

عمر اسلام لانے کے بعد خوفزدہ تھا

امید ہے کہ آپ کے بھی کان پک چکے ہوں گے یہ سن سن کے، کہ عمر جب اسلام لایا، تو اسلام کو بہت مضبوطی ملی۔ ہم اس باب میں صحیح بخاری سے رجوع کرتے ہیں کہ جب عمر اسلام لائے، تو ان کی کیا حالت تھی
 
 
بخاری اپنی صحیح، جلد ۵، صفحہ ۴۸، حدیث ۳۸٦۴؛ پر درج کرتے ہیں کہ 
 
 
 
عبداللہ بن عمر کہتے ہیں: جب عمر گھر میں خوفزدہ تھے، ان کے پاس عاص بن وائل آئے، جو کہ ایک کڑھائی والی چادر پہنے ہوئے تھے۔ وہ بنی سہم میں تھے، اور ہمارے زمانہ جاہلیت کے حلیف تھے۔ انہوں نے پوچھا کہ: تہمیں ساتھ کیا خرابی ہے؟ عمر کے کہا کہ تمہارے لوگوں نے کہا ہے کہ وہ مجھے قتل کر دیں گے اگر میں اسلام لایا۔ اس نے کہا کہ تمہیں کوئی کچھ نہیں کہتے گا اگر میں تمہیں امان دے دوں۔ سو وہ نکلا اور لوگوں سے ملا، تو ان سے پوچھا کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ عمر کا ارادہ ہے جو کہ اسلام لایا۔ اس نے کہا کہ تمہارے پاس کوئی راہ نہیں اس تک جانے کا۔ پس لوگ واپس ہو گئے
 
 
عربی متن یوں ہے 
 

Quote
 
3864 - حَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ قَالَ: فَأَخْبَرَنِي جَدِّي زَيْدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: بَيْنَمَا هُوَ فِي الدَّارِ خَائِفًا، إِذْ جَاءَهُ العَاصِ بْنُ وَائِلٍ السَّهْمِيُّ أَبُو عَمْرٍو، عَلَيْهِ حُلَّةُ حِبَرَةٍ وَقَمِيصٌ مَكْفُوفٌ بِحَرِيرٍ، وَهُوَ مِنْ بَنِي سَهْمٍ، وَهُمْ حُلَفَاؤُنَا فِي الجَاهِلِيَّةِ، فَقَالَ لَهُ: مَا بَالُكَ؟ قَالَ: " زَعَمَ قَوْمُكَ أَنَّهُمْ سَيَقْتُلُونِي إِنْ أَسْلَمْتُ، قَالَ: لاَ سَبِيلَ إِلَيْكَ، بَعْدَ أَنْ قَالَهَا أَمِنْتُ، فَخَرَجَ العَاصِ فَلَقِيَ النَّاسَ قَدْ سَالَ بِهِمُ الوَادِي، فَقَالَ: أَيْنَ تُرِيدُونَ؟ فَقَالُوا: نُرِيدُ هَذَا ابْنَ الخَطَّابِ الَّذِي صَبَا، قَالَ: لاَ سَبِيلَ إِلَيْهِ فَكَرَّ النَّاسُ "
 

 
 
ابن حجر اپنی کتاب، فتح الباری، جلد ۱، صفحہ ۳٦۸؛ پر لکھتے ہیں
 
 
عمر اپنے گھر میں تھا خوفزدہ، یعنی عمر اسلام لانے کے بعد۔۔۔۔
 
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
أخرج البخاري حديث بن وهب عن عمر بن محمد قال أخبرني جدي زيد بن عبد الله بن عمر عن أبيه قال بينما هو في الدار خائفا يعني عمر بعد أن أسلم إذ جاءه العاص بن وائل السهمي
 

 
 
محترم خود دوسروں کے امان کے محتاج ہیں
 
 
 
یہ پوسٹ برادر المحامی کی عربی پوسٹ سے ماخوذ ہے

کیا رسول اللہ عمر سے ڈرتے تھے؟

 
مسند ابو یعلی، جلد ۷، صفحہ ۴۴۹؛ میں ایک روایت آتی ہے کہ 
 
 
عائشہ نے کہا کہ ایک بار نبی پاک آئے اور میں نے کھانا بنا کر پیش کیا۔ نبی پاک میرے اور سودہ کے درمیان تھے۔ میں نے سودہ سے کہا کہ کھا لو۔ اس نے انکار کیا۔ میں نے کہا کہ کھا لو، ورنہ میں یہ تمہارے چہرے پر مل دوں گی۔اس نے انکار کیا- میں نے ہاتھ سالن میں ڈالا، اور اس کے چہرے پر مل دیا۔ نبی پاک ہنسے۔ انہوں نے ان پر ہاتھ رکھا اور کہا کہ اس کے چہرے پر لگا دو- نبی پاک ہنسے، انتے میں عمر آیا، اور کہا کہ اے عبداللہ! اے عبداللہ! نبی پاک نے سوچا کہ وہ اندر آئے گا، سو ہمیں کہا کہ جا کر منہ دھو آو۔ عائشہ نے کہا: پس میں عمر سے ایسی ہی ڈرتی ہوں جیسے کہ نبی پاک ڈرتے تھے
 
 
عربی متن یوں ہے

Quote
 
[4476] حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ، أَنَّ عَائِشَةَ، قَالَتْ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صلي الله عليه وسلم بِخَزِيرَةٍ قَدْ طَبَخْتُهَا لَهُ، فَقُلْتُ لِسَوْدَةَ وَالنَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم بَيْنِي وَبَيْنَهَا: كُلِي، فَأَبَتْ، فَقُلْتُ: لَتَأْكُلِنَّ، أَوْ لأُلَطِّخَنَّ وَجْهَكِ، فَأَبَتْ، فَوَضَعْتُ يَدِي فِي الْخَزِيرَةِ، فَطَلَيْتُ وَجْهَهَا، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم فَوَضَعَ بِيَدِهِ لَهَا، وَقَالَ لَهَا: ” الْطَخِي وَجْهَهَا “، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صلي الله عليه وسلم لَهَا، فَمَرَّ عُمَرُ، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ ! يَا عَبْدَ اللَّهِ ! فَظَنَّ أَنَّهُ سَيَدْخُلُ، فَقَالَ: قُومَا فَاغْسِلا وُجُوهَكُمَا “، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَا زِلْتُ أَهَابُ عُمَرَ لِهَيْبَةِ رَسُولِ اللَّهِ صلي الله عليه وسلم.
 

 
 
کتاب کے محقق، شیخ حسین سلیم نے سند کو حسن قرار دیا
 
 
حافظ ہیثمی نے مجع الزوائد، جلد ۴، صفحہ ۳۱٦؛ میں راویوں کو صحیح حدیث کا راوی کہا، سوائے محمد بن عمرہ کے، اور اس بات کی وضاحت کی کہ ان کی حدیث حسن کے درجے کی ہے۔ عربی متن یوں ہے


Quote
 
رواه أبو يعلي ورجاله رجال الصحيح خلا محمد بن عمرو بن علقمة وحديثه حسن.

 
 
یہ روایت تاریخ دمشق میں بھی ابو یعلی کے طریق سے مذکور ہے۔ الفاظ یوں ہیں

Quote
 
رقم الحديث: 46493
(حديث مرفوع) أخبرنا أبو المظفر بن القشيري ، أنا أبو سعد الأديب ، أنا أبو عمرو بن حمدان ، أنا أبو يعلى ، نا إبراهيم يعني : ابن الحجاج ـ نا حماد ، عن محمد بن عمرو ، عن يحيى بن عبد الرحمن بن حاطب ، أن عائشة ، قالت : أتيت النبي صلى الله عليه وسلم بخزيرة قد طبختها له ، فقلت لسودة والنبي صلى الله عليه وسلم بيني وبينها ، كلي ، فأبت ، فقلت لها : لتأكلن أو لألطخن وجهك ، فأبت ، فوضعت يدي في الخزيرة ، فطليت وجهها ، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم ، فوضع بيده لها ، وقال لها : " الطخي وجهها " ، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم لها ، فمر عمر ، فقال : يا عبد الله ، فظن أنه سيدخل ، فقال : " قوما فاغسلا وجوهكما " ، فقالت عائشة : فما زلت أهاب عمر لهيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم 
 

 
 
آن لائن لنک ملاحظہ ہو
 
 
صالحی شامی نے اپنی کتاب،  سبل الهدي والرشاد في سيرة خير العباد، ج۹، ص۷۰، میں مذکورہ بالا حدیث کو حسن کہا ہے۔ عربی متن یوں ہے

Quote
 
وروى النسائي وأبو بكر الشافعي وأبو يعلى وسنده حسن عن عائشة - رضي الله تعالى عنها – قالت : زارتنا سودة يوما ، فجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم بيني وبينها فأتيت بحريرة فقلت لها : كلي ، فأبت ، فقلت لتأكلين وإلا لطخت وجهك ، فأبت ، فأخذت من القصعة شيئا ، فلطخت به وجهها فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم ورفع رجله من حجرها ، وقال الطخي وجهها فأخذت شيئا من القصعة فلطخت به وجهي ، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يضحك فمر عمر فنادى ، يا عبد الله يا عبد الله فظن النبي صلى الله عليه وسلم أنه سيدخل فقال: قوما فاغسلا وجوهكما قالت عائشة : فما زلت أهاب عمر لهيبة رسول الله صلى الله عليه وسلم.
 

کیا عمر نے احادیث بیان کرنے سے روکا؟

سنن دارمی، ج۱، ص ۹۷؛ سے ایک روایت پیش خدمت ہے


279 - أخبرنا سهل بن حماد ثنا شعبة ثنا بيان عن الشعبي عن قرظه بن كعب : أن عمر شيع الأنصار حين خرجوا من المدينة فقال أتدرون لم شيعتكم قلنا لحق الأنصار قال انكم تأتون قوما تهتز ألسنتهم بالقرآن اهتزاز النخل فلا تصدوهم بالحديث عن رسول الله صلى الله عليه و سلم وأنا شريككم قال فما حدثت بشيء وقد سمعت كما سمع أصحابي 
قال حسين سليم أسد : إسناده صحيح

قرظہ بن کعب کہتے ہیں کہ عمر نے انصار کو مدینہ سے جاتے وقت رخصت کیا۔ اور ان سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ میں کیوں رخصت کر رہا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ انصار ہونے کے حق کے باعث۔ عمر نے کہا: تم ایک ایسے قوم کے پاس جا رہے ہو جن کی زبان قرآن کی تلاوت سے ایسے لرزتی ہے جیسا کہ کھجور کے تنے، پس تم ان کو نبی اکرم کی حدیثوں کو سنا کر (قرآن سے) دور مت کرنا، اور میں اس میں تمہارا شریک ہوں۔ قرظہ کہتے ہیں کہ پھر میں نے کوئی حدیث بیان نہیں کی جبکہ میں نے بھی صحابی کی طرح حدیثیں سنی تھیں

کتاب کے محقق، شیخ حسین سلیم اسد نے سند کو صحیح کہا ہے

یہ روایت سنن دارمی کے اردو ترجمہ میں، ج۱، ص ۲۱۷، حدیث ۲۸۷، پر ہے۔ کتاب کے محقق، ابو الحسن عبدالمنان راسخ، نے سند کو صحیح قرار دیا

تاہم راسخ صاحب کا یہ کہنا کہ عمر نے ان کو نبی اکرم کے ظاہری حسن یا دوسری خوبیوں کے متعلق احادیث بیان کرنے سے روکا ہو گا

یہ ان کی قیاس آرائی ہے۔ روایت میں ایسا کچھ نہیں لکھا۔ خود موصوف نے (روکا ہو گا) کے الفاظ کہہ کر اس بات کی تائید کی کہ یہ ایک خیال ہے۔ قطعی بات نہیں


اس کے علاوہ سیر اعلام نبلاء، ج۲، ص ٦۰۱، تحقیق شیخ شعیب الارناوط، طبع موسسۃ الرسالۃ؛ ایک اور روایت ملتی ہے 

أخرجه أبو زرعة الدمشقي في تاريخه (1475) من طريق محمد بن زرعة الرعيني، حدثنا مروان بن محمد، حدثنا سعيد بن عبد العزيز، عن إسماعيل بن عبيد الله، عن السائب بن يزيد، سمعت عمر بن الخطاب يقول لأبي هريرة: لتتركن الحديث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أو
لالحقنك بأرض دوس، وقال لكعب: لتتركن الأحاديث أو لالحقنك بأرض القردة.
وهذا إسناد صحيح

ابو زرعہ اپنی تاریخ میں اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں کہ عمر نے ابو ہریرہ سے کہا کہ تم نبی اکرم سے حدیثیں بیان کرنا بند کرو ورنہ میں تمہیں دوس بھیج دوں گا۔ کعب نے ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا: تم حدیثیں بیان کرنا ترک کرو نہیں تو میں تمہیں بندروں والی زمین میں بھیج دوں گا

(شیخ شعیب کہتے ہیں) یہ سند صحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔

ہم نے اس مختصر مقالے میں دونوں روایات علمائے اہلسنت کی تحقیق کے ساتھ پیش کی ہیں تاکہ جحت تمام ہو

Popular Posts (Last 30 Days)

 
  • Recent Posts

  • Mobile Version

  • Followers